Motivational stories in Urdu

motivational stories in urdu:

Motivational Stories in Urdu: Discover a collection of inspiring tales in the Urdu language that will uplift your spirits and ignite a sense of motivation within you. Each Motivational Stories in Urdu   story is carefully crafted to provide valuable life lessons and encourage personal growth. Immerse yourself in the power of these motivational stories in Urdu to embark on a journey of self-discovery and fulfillment.

سفید کاغذ اور سیاہ نقطہ: زندگی کے مسائل اور خوشیوں کی کہانی

motivational stories in urdu

ایک دن ایک پروفیسر کلاس روم میں داخل ہوئے اور طلباء سے کہا کہ آج ان کا ایک سرپرائز ٹیسٹ ہوگا۔ طلباء نے ملے جلے جذبات کے ساتھ اپنی نشستیں سنبھالیں اور سرپرائز ٹیسٹ کے لئے تیار ہو گئے۔ پروفیسر نے ٹیسٹ پیپرز تقسیم کیے اور سب کو ہدایت دی کہ جب تک سب کو پیپر نہ مل جائیں، انہیں الٹا رکھیں۔ جب تمام پیپرز تقسیم ہو گئے، پروفیسر نے طلباء سے کہا کہ وہ پیپر پلٹیں۔ ان کی حیرت کی بات یہ تھی کہ پیپر پر کوئی سوالات نہیں تھے، بلکہ ایک خالی صفحہ تھا جس کے درمیان میں ایک سیاہ نقطہ تھا۔ طلباء الجھن میں تھے اور ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے تاکہ اس کا مطلب سمجھ سکیں۔ ان کے ردعمل دیکھ کر پروفیسر نے کلاس کو مخاطب کیا:”میں چاہتا ہوں کہ آپ اس پیپر پر جو دیکھتے ہیں اس کے بارے میں لکھیں۔”

اگرچہ وہ الجھن میں تھے، طلباء نے لکھنا شروع کیا، اس عجیب کام کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ امتحان کے اختتام پر، پروفیسر نے تمام پیپرز جمع کر لئے اور ایک ایک کرکے جوابات پڑھنے لگے۔ جیسے جیسے انہوں نے پڑھا، یہ واضح ہو گیا کہ ہر طالب علم نے صرف سیاہ نقطے کے بارے میں لکھا تھا، جہاں وہ تھا اور اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ جب وہ پڑھ چکے، پروفیسر نے خاموش کلاس سے خطاب کیا اور کہا:”میں اس ٹیسٹ کو گریڈ نہیں کرنے والا۔ میں آپ کو کچھ سوچنے کے لئے دینا چاہتا تھا۔ آپ سب کے سامنے ایک سفید صفحہ تھا جس پر ایک چھوٹا سا سیاہ نقطہ تھا، لیکن آپ میں سے کسی نے سفید حصے کے بارے میں نہیں لکھا۔ سب نے صرف سیاہ نقطے پر توجہ دی۔”

پھر انہوں نے جاری رکھا:”آپ دیکھیں، ہماری زندگیاں بھی اس صفحے کی طرح ہیں۔ ہماری زندگیاں زیادہ تر سفید صفحے سے بھری ہوئی ہیں، جس میں بہت کچھ انجوائے کرنے اور سراہنے کے لئے ہے، لیکن ہم عموماً سیاہ نقطوں پر توجہ دیتے ہیں، جو کہ ہماری زندگی کے مسائل اور رکاوٹیں ہیں۔ ہمارے پاس شکر گزار ہونے کے لئے بہت کچھ ہے۔ ہمارے پاس ارد گرد کی فطرت ہے جو ہمیں ہر دن تازہ کرتی ہے، ہمارے پاس دوست ہیں جو ہمارے ساتھ کھڑے رہتے ہیں، ہمارے پاس نوکریاں ہیں جو ہمیں سپورٹ کرتی ہیں، اور ہمارے خاندان اور دیگر بہت سی نعمتیں ہیں۔ لیکن اس کے بجائے ہم عموماً چھوٹی صحت کے مسائل، مطلوبہ چیزوں کے لئے پیسے کی کمی، رشتوں میں مسائل یا جب چیزیں ہمارے من چاہے طریقے سے نہیں ہوتیں تو ان پر پریشان ہوتے ہیں۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ ہم اچھے چیزوں کو پہچانیں اور ان کی قدر کریں، چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی یا عام کیوں نہ ہوں۔ چاہے وہ پارک میں ایک پُرسکون چہل قدمی ہو، ایک اچھی کتاب ہو، کسی دوست کے ساتھ شیئر کیا گیا محبت بھرا لمحہ ہو، یا صرف اپنے لئے ایک خاموش لمحہ ہو، یہ سب نوٹس اور سراہنے کے قابل ہیں۔ سیاہ نقطوں سے سفید جگہ کی طرف توجہ دینے سے ہم اپنی روز مرہ زندگی میں زیادہ خوشی اور اطمینان پا سکتے ہیں۔”

پروفیسر کے الفاظ نے طلباء کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے مزید کہا:”اندھیرے نقطے اصل میں ہماری زندگی کے باقی سب کچھ کے مقابلے میں بہت چھوٹے ہیں، لیکن ہم اکثر ان پر توجہ دیتے ہیں اور انہیں ہمیں پریشان کرنے دیتے ہیں۔ ہمیں اپنی زندگی کے بڑے اور روشن حصوں پر زیادہ توجہ دینی چاہئے، اچھی چیزوں کے لئے شکر گزار ہونا چاہئے اور زندگی کے ہر لمحے کا لطف اٹھانا چاہئے تاکہ آپ کی میراث خوشی اور حوصلہ افزائی کی روشنی بن سکے۔”

“اگر ہم اپنی زندگیوں میں دیکھیں، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہماری زندگیاں ایک سفید کاغذ کی طرح ہیں جس پر ایک سیاہ نقطہ ہے۔ ہم سب اپنی زندگی میں کچھ مسائل اور چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں، لیکن ہمارے ارد گرد بھی بہت سی اچھی چیزیں ہیں جو ہم شاید نوٹس نہ کریں۔ تاہم، ان مسائل کو ہماری توجہ کی ضرورت ہے، لیکن انہیں ہماری زندگی کی تمام مثبت چیزوں پر حاوی نہیں ہونا چاہئے۔ اکثر ہم صرف اس وقت اپنی نعمتوں کی قدر کرتے ہیں جب ہم کسی ایسے شخص کو دیکھتے ہیں جس کے پاس وہ چیزیں نہیں ہیں۔ مثلاً، کسی بے گھر شخص کو دیکھنا ہمیں اپنے گھر کی شکرگزاری کی یاد دلاتا ہے، اسی طرح کسی نابینا شخص سے ملنا ہمیں اپنی بصارت کی قدر کرواتا ہے۔”

“یہ عام بات ہے کہ ہم اپنی نعمتوں کو اس وقت تک نظرانداز کرتے ہیں جب تک کہ ہم کسی ایسے شخص سے نہ ملیں جو ان سے محروم ہو۔ ہمارا ذہن عموماً مسائل پر توجہ دیتا ہے، لیکن ہم اسے اپنی زندگی کی اچھی چیزیں دیکھنے کے لئے تربیت دے سکتے ہیں۔ ہماری زندگیوں کے مثبت پہلوؤں پر توجہ دینے کا انتخاب واقعی ہمارے دنیا کو دیکھنے کے انداز کو بدل سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے مسائل کو نظر انداز کریں یا یہ ظاہر کریں کہ وہ موجود نہیں ہیں، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ ہم انہیں تسلیم کریں لیکن انہیں ہماری سوچوں اور احساسات پر حاوی نہ ہونے دیں۔ ہم ایک متوازن رویہ اپنانے کی کوشش کریں، مثبت پہلوؤں کو منفی پہلوؤں کے برابر یا اس سے زیادہ توجہ دیتے ہوئے۔”

“اس سوچ کا طریقہ ہمارے ذہنی اور جذباتی صحت پر نمایاں اثر ڈال سکتا ہے۔ یہ شکرگزاری کو فروغ دیتا ہے جو خوشی کو بڑھاتا ہے اور تناؤ کو کم کرتا ہے۔ یہ ہماری مزاحمت کو مضبوط بناتا ہے، جس سے ہمیں زندگی کے چیلنجز سے نمٹنے میں آسانی ہوتی ہے، اور ایک مثبت نقطہ نظر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو ایک زیادہ خوشگوار اور خوشحال زندگی کی طرف لے جاتا ہے۔ لہذا آئیے ہم اپنی زندگیوں میں سفید جگہ کی قدر کریں اور ہر دن کی خوبصورتی اور نعمتوں کو گلے لگائیں

 

کسان کی حکمت: صبر اور حوصلے کی کہانی

motivational stories in urdu

motivational stories in urdu

ایک دن، ایک بوڑھا کسان اپنے بیٹے کے ساتھ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔ اس کے پاس ایک پرانا گھوڑا تھا جو ان کے کھیت میں کام کرتا تھا۔ ایک دن، گھوڑا بھاگ گیا۔ گاؤں والے کسان کے پاس آئے اور کہا، “تمہاری بدقسمتی ہے کہ تمہارا گھوڑا بھاگ گیا۔”

بوڑھا کسان مسکرایا اور جواب دیا، “ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے نہیں۔”

کچھ دنوں بعد، وہی گھوڑا جنگل سے واپس آیا اور اپنے ساتھ تین جنگلی گھوڑے بھی لے آیا۔ گاؤں والے دوبارہ آئے اور کہا، “تم کتنے خوش قسمت ہو! اب تمہارے پاس چار گھوڑے ہیں۔”

کسان نے پھر مسکرا کر کہا، “ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے نہیں۔”

کسان کا بیٹا ان جنگلی گھوڑوں میں سے ایک کو سدھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ گھوڑا اس کو گرادیا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ گاؤں والے پھر آئے اور افسوس سے کہا، “کتنی بدقسمتی ہے! تمہارے بیٹے کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔”

کسان نے ایک بار پھر مسکرا کر کہا، “ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے نہیں۔”

کچھ ہفتوں بعد، فوج گاؤں میں آئی اور تمام جوانوں کو جنگ کے لئے بھرتی کرنے لگی۔ کسان کا بیٹا، جس کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی، جنگ میں جانے سے بچ گیا۔ گاؤں والوں نے کسان کے پاس آکر کہا، “کتنے خوش قسمت ہو تم! تمہارا بیٹا جنگ میں نہیں جا رہا۔”

کسان نے مسکرا کر کہا، “ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے نہیں۔”

یہ کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ زندگی میں ہر واقعہ کا مطلب اور اثر فوراً واضح نہیں ہوتا۔ ہمیں صبر اور حوصلے کے ساتھ ہر صورتحال کا سامنا کرنا چاہئے اور فوری نتائج پر قضاوت نہیں کرنی چاہئے۔ زندگی کی مشکلات اور نعمتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں، اور وقت کے ساتھ ہمیں ان کا اصل مطلب سمجھ آتا ہے

نایاب کے خواب

ایک دور دراز گاؤں میں، ایک لڑکی رہتی تھی جس کا نام نایاب تھا۔ نایاب کی آنکھوں میں خوابوں کی چمک تھی، لیکن اس کے ارد گرد کے لوگ اکثر اسے حقیقتوں کا سامنا کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔ نایاب کا خواب تھا کہ وہ ایک دن ایک بڑی مصور بنے اور اپنے فن کے ذریعے دنیا کو خوشی اور امید دے۔

گاؤں میں، کوئی بھی مصوری کی اہمیت کو نہیں سمجھتا تھا۔ لوگ نایاب کا مذاق اڑاتے اور کہتے کہ اس کا خواب صرف وقت کا ضیاع ہے۔ لیکن نایاب نے ہار ماننے سے انکار کر دیا۔ اس نے اپنے کمرے کی دیواروں پر پینٹنگ کرنا شروع کی اور ہر دن اپنے فن کو بہتر بنانے کے لئے محنت کی۔

ایک دن، گاؤں میں ایک نمائش کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف علاقوں کے لوگ اپنے ہنر دکھانے آئے۔ نایاب نے بھی اپنے چند بہترین فن پارے نمائش میں رکھے۔ پہلے تو لوگ اس کے فن پاروں کو دیکھ کر حیران ہوئے، پھر تعریفوں کی بارش ہونے لگی۔ لوگوں نے نایاب کی محنت اور جذبے کو سراہا۔

نایاب کے فن پارے ایک مشہور آرٹ گیلری کے مالک کی نظر میں آئے، جو وہاں نمائش دیکھنے آیا تھا۔ اس نے نایاب کو اپنی گیلری میں ایک بڑی نمائش کرنے کی پیشکش کی۔ نایاب کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اس نے یہ موقع قبول کیا اور مزید محنت سے اپنے فن کو نکھارا۔

کچھ مہینوں بعد، نایاب کی نمائش شہر کی مشہور آرٹ گیلری میں منعقد ہوئی۔ لوگوں نے نایاب کے فن پارے دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا اور بہت تعریف کی۔ اس کی پینٹنگز نے لوگوں کے دلوں کو چھو لیا اور نایاب نے اپنے خواب کو حقیقت بنا دیا۔

نایاب کی کہانی نے گاؤں کے لوگوں کو بھی حوصلہ دیا۔ انہوں نے سمجھا کہ خواب دیکھنا اور انہیں پورا کرنے کی کوشش کرنا کبھی بےکار نہیں ہوتا۔ نایاب کی محنت اور عزم نے اسے ایک عظیم مصور بنایا اور اس کی کہانی نے دوسرے لوگوں کو بھی اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی تحریک دی۔

یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہمیں اپنے خوابوں کی پیروی کرنی چاہئے، چاہے کتنی ہی مشکلات کیوں نہ آئیں۔ محنت، عزم اور حوصلے سے ہم اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔

ماں کی دعا

ایک دن ایک نوجوان لڑکی اپنے گاؤں میں کھیل رہی تھی۔ اس کی ماں ایک مزدور تھی اور دن بھر کام کرتی تھی تاکہ اپنی بیٹی کو پڑھا سکے۔ لڑکی بہت ذہین تھی اور ہمیشہ اپنی کلاس میں پہلی آتی تھی۔ لیکن غربت نے اسے ہر وقت مشکلات میں رکھا۔

ایک دن، لڑکی کی ماں بیمار ہو گئی اور اس کے پاس علاج کے پیسے نہیں تھے۔ لڑکی نے ہر ممکن کوشش کی لیکن پیسے جمع نہ کر سکی۔ اس کی ماں نے اسے تسلی دی اور کہا، “بیٹی، دعا کرو اور اللہ پر یقین رکھو، وہ ہمارے لئے کچھ بہتر کرے گا۔”

لڑکی نے دل سے دعا کی اور اپنی ماں کی خدمت میں لگ گئی۔ چند دن بعد، ان کے گاؤں میں ایک بڑا طبی کیمپ لگا۔ وہاں ایک مشہور ڈاکٹر آیا اور اس کی ماں کا مفت علاج کیا۔ ماں جلد صحتیاب ہو گئی۔

لڑکی نے محنت جاری رکھی اور اسکالرشپ حاصل کر کے ایک بڑے کالج میں داخلہ لے لیا۔ اس نے اپنی تعلیم مکمل کی اور ایک کامیاب ڈاکٹر بن گئی۔ اس نے اپنی ماں کی دعا اور اللہ کے کرم کو ہمیشہ یاد رکھا اور اپنے گاؤں میں ایک کلینک کھولا جہاں غریبوں کا مفت علاج کیا جاتا تھا۔

یہ کہانیاں ہمیں سکھاتی ہیں کہ محنت، عزم اور دعا کی طاقت کے ذریعے ہم اپنی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں اور کامیابی حاصل کر سکتے ہیں

 

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here